۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
ڈاکٹر یعقوب بشوی

حوزہ/ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ مسلم ممالک کا نظامِ تعلیم، قرآن مجید کے بجائے مغربی نظامِ تعلیم کی تقلید ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشہد مقدس میں ایک علمی ترویجی کرسی (Extension scientific chair) ”قرآن میں نظامِ تعلیم امام خامنہ ای مدظلہ کے نقطۂ نگاہ سے“ کے عنوان سے منعقد ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق، یہ پروگرام، المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی شعبۂ مشہد اور ہیئت عزاداران علی ابن ابی طالب اردو زبان مشہد کے باہمی تعاون سے منعقد ہوا، اس علمی نشست میں علماء اور برصغیر پاک وہند سے تعلق رکھنے والے طلاب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

اس علمی ترویجی کرسی (Extension scientific chair) سے گفتگو میں استاد حوزه حجت الاسلام والمسلمین ڈاکڑ محمد یعقوب بشوی نے قرآن مجید میں تعلیمی نظام کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض ابتدائی اور سطحی طور پر تحلیل کرنے والے افراد کے خلاف جو دین کے پھیلاؤ کو تلوار کی وجہ سے جانتے ہیں قرآن مجید دین کے پھیلاؤ کو تعلیم و تربیت قرار دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالٰی اپنے محبوب پیغمبر(صلی الله علیہ وآلہ وسلّم) کو پہلی وحی میں ہی توحید محور تعلیمی نظام کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم) کو تعلیم کی طرف دعوت دیتا ہے (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ »(سوره علق،آیت1تا5).

ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اسلامی نظامِ تعلیم میں توحید اور توحیدی تربیت کا پہلا درجہ ہے۔ معلم اور مربی کا انتخاب اہلیت کے معیار کے مطابق ہونا چاہیئے اور صلاحیتوں کی بنیاد پر معلم کا چناؤ ضروری ہے۔ آج ہمارے علمی مراکز میں قواعد و ضوابط نہ ہونے کے برابر ہے اور قواعد و ضوابط پر باہمی ارتباط کو ترجیح دی جاتی ہے، لہٰذا ہم قرآن مجید سے تعلیمی نظام نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور مغربی ناقص تعلیمی سسٹم کے گرد ہمارا تعلیمی نظام گھوم رہا ہے۔

انہوں نے مغربی نظامِ تعلیم کے نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نمبر اور ڈگری حاصل کرنے کیلئے حاصل کی جانے والی تعلیم علم کے معیار کو گھٹانے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ آج تعلیم کا اصلی مقصد، مدنظر نہیں ہے جس کی وجہ سے آج ہماری جامعات، مدارس اور علمی مراکز سے ڈگری حاصل کرنے والے شکم پرست، ملحد اور مادی سوچ کےحامل افراد قوم کے سامنے آرہے ہیں جو مغربیوں سے زیادہ مغرب نواز ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی نظامِ تعلیم میں فکری جمود پایا جاتا ہے یعنی مغرب نواز کہتے ہیں کہ ہر چیز مغربیوں سے ملے گی اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ علمی تقلید بھی نقصان دہ ہے۔ آج مغرب کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں اس کا نتیجہ خودبختگی اور خود اعتمادی کی کمی ہے اور کہتے ہیں کہ مغرب علم و ٹکنالوجیز میں آگے بڑھ رہا ہے اور ہم تماشائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے کفر و اسلام کو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں یہ سب فکری جمود اور مغربی نظامِ تعلیم کی تقلید کی وجہ ہے۔

ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ مغربی نظامِ تعلیم کو سب کچھ سمجھنے والے دین فہمی سے محروم ہیں۔ قرآن کی نگاه میں، علم کا حصول، دین فہمی کیلئے ہے: « وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ »(سوره توبه،آیت122». مناسب نہیں کہ سب مؤمنین (میدان جہاد کی طرف) کوچ کریں۔ ہر گروہ میں سے ایک طائفہ کیوں خرچ نہیں کرتا (اور ایک حصہ باقی نہیں رہتا) دین (اور اسلام کے معارف و احکام ) سے آگہی حاصل کریں اور اپنی قوم کی طرف باز گشت کے وقت اُنھیں ڈرائیں تاکہ وہ (حکم خدا کی مخالفت سے) ڈریں اور رک جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ مغربی نظامِ تعلیم نے الہٰی فکر کو ختم کیا ہے جس کی وجہ سے مادیات کے علاؤہ کوئی خدا اور آخرت کےلئے کام کرنے کو تیار نہیں ہے، اس کا نقصان دین اور دین کی تبلیغ کے فقدان کی صورت میں نظر آتا ہے۔ تعلیم اور تربیت میں جدائی، یہ تعلیم کے نام وہ خطرناک کام ہے کہ آج سب رو رہے ہیں کہ تمام پیسہ خرچ کیا تھا تاکہ بچے میں انسانیت آ جائے لیکن بچہ حیوان بن کر واپس آیا ہے دردمند افراد کے بجائے سوداگر افراد کو ہم دیکھتے ہیں۔

حجت الاسلام ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ کوئی بھی معاشره، اس سماج کے تعلیمی نظام کے گرد گھومتا ہے۔ تعلیمی نصاب کسی بھی شخص یا سماج کی جان ہوتا ہے اور انسان سازی میں اس کی ضرورت مقدر ساز ہے۔ نصاب تعلیم میں قرآن و سنت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے علمی مراکز میں یا تو قرآن ہے ہی نہیں یا اگر شامل ہے تو صرف حفظ کی حد تک ہے لیکن فہم قرآن کے لیے کوئی انتظام ہی نہیں ہے یعنی فہم قرآن ہماری ضرورت نہیں ہے یہ هماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای مدظلہ حوزه اور یونیورسٹیز کے نصاب میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور اگر یہ نعره عملی نہیں ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجہ، ماہر نصاب ساز اساتید اور محقیقن کی کمی ہے، جو علم، مہارت آئنده کیلئے فکرمند، بلند ہمت، بصیرت اور اعتماد نفس کے مالک ہوں۔ اس نصاب کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے علمی مراکز، دین شناس افراد کی تخلیق سے محروم اور عاجز ہیں اس طرح نوکر تو پیدا ہو رہا ہے، لیکن کوئی قابلِ ذکر انسان پیدا کرنے میں تعلیمی مراکز ناکام ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .